Saturday, September 23, 2017

صدیاں لگیں انسان کو جس علم کی خاطر

دو وقت کی روٹی نے وہ پھر چھین لیا ہے

اپنی تھی دہائی کہ ہوا گھر میں اندھیرا

ایسی ہوئی شنوائی کہ گھر چھین لیا ہے


صدیوں کی مشقت نے جو سایہ تھا خریدا
اس دور نے ہم سے وہ شجر چھین لیا ہے

کہتے ہیں کہ جینا ہے تو جنگل کو ہی چلئے
انسان سے حیواں نے نگر چھین لیا ہے

تھا حکمِ خدا ظلم میں کر جاوں میں ہجرت
تہذیب کے زنداں نے سفر چھین لیا ہے

ہر شے میں نظر آتی ہے اب ایک سیاہی
اس رات نے رنگوں کا ہنر چھین لیا ہے

ابرک یہ شکایت نہیں بس رب سے ہے فریاد
کاہے مری دعاوں سے اثر چھین لیا ہے


اتباف ابرک


Leave a Reply

Your Feedback is Precious

Subscribe to Posts | Subscribe to Comments

Translate

Our Live Stream

Best of the Week

Powered by Blogger.

- Copyright © Best Urdu Poetry Collection -Metrominimalist- Powered by Blogger - Designed by Johanes Djogan -